Untitled

ہنگامہ ہے کیوں برپا ٹھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ تو نہیں مارا، چوری تو نہیں کی ہے

نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ باتیں ہیں
اس رنگ کو کیا جانے پوچھو تو کبھی پی ہے

اس مے سے نہیں مطلب، دل جس سے ہے بیگانہ
مقصود ہے اس مے سے دل ہی میں جو کھنچتی ہے

اے شوق وہی مے پی، اے ہوش ذرا سو جا
مہمانِ نظر اس دم اک برق تجلی ہے

واں دل میں کہ صدمے دو، یاں جی میں کہ سب سہہ لو
ان کا بھی عجب دل ہے، میرا بھی عجب جی ہے

ہر ذرہ چمکتا ہے انوارِ الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے

سورج میں لگے دھبا، فطرت کے کرشمے ہیں
بت ہم کو کہیں کافر، اللہ کی مرضی ہے

Rate this poem: 

Reviews

No reviews yet.